Best Collection Urdu (01-35) Poetry
.محمد شہباز تنولی پر مزید اشعار(01-35) دیکھیں
(1) محمد شہباز تنولی
لگا کر آگ سینے میں چلے ہو تم کہاں
ابھی تو راکھ اُڑنے سے تماشا اور بھی ہو گا
ابھی تو راکھ اُڑنے سے تماشا اور بھی ہو گا
(2) محمد شہباز تنولی
لمبی مسافتوں نے چپکے سے یہ کہا
تنہا جو آ رہے ہو، محبت سے کیا ملا ؟
تنہا جو آ رہے ہو، محبت سے کیا ملا ؟
(3) محمد شہباز تنولی
لے گیا کون تیرے دل کا سکون و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
(4) محمد شہباز تنولی
لکھنا میرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا
(5) محمد شہباز تنولی
پلکوں کے بند کو توڑ کر دامن پہ آ گِرا
ایک آنسو میرے صبر کی توہین کر گیا
ایک آنسو میرے صبر کی توہین کر گیا
(6) محمد شہباز تنولی
پھر سے ماضی کی یادوں میں کھو گیا ہوں میں
پوچھا جو کسی نے محبت کا سفر کیسا تھا
پوچھا جو کسی نے محبت کا سفر کیسا تھا
(7) محمد شہباز تنولی
پھر یوں ہوا کہ زخموں نے جاگیر بنا لی
پھر یوں ہوا کہ درد مجھے راس آ گیا
پھر یوں ہوا کہ درد مجھے راس آ گیا
(8) محمد شہباز تنولی
پھر دل کی خواہش نے خواب دِکھایا کوئی
ہاتھ کسی کے ہاتھ میں تھا، یاد آیا کوئی
ہاتھ کسی کے ہاتھ میں تھا، یاد آیا کوئی
(9) محمد شہباز تنولی
پتھر چُھپے ہیں اِن میں یا موتی کیا خبر
دل تو سمندروں سے بھی گہرے ہیں دوستو
دل تو سمندروں سے بھی گہرے ہیں دوستو
(10) محمد شہباز تنولی
پِھر سبھی کُچھ خُدا پہ چھوڑ دِیا
اور کرتا بھی میں تو کیا کرتا
اور کرتا بھی میں تو کیا کرتا
(11) محمد شہباز تنولی
قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مرے ہیں
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مرے ہیں
(12) محمد شہباز تنولی
قبریں ہی جانتی ہیں کہ اس شہرِ جبر میں
مر کر ہوئے ہیں دفن کہ زندہ گڑے ہیں لوگ
مر کر ہوئے ہیں دفن کہ زندہ گڑے ہیں لوگ
(13) محمد شہباز تنولی
شام ہوتے ہی چراغوں کو بھجا دیتا ہوں
یہ دل ہی کافی ہے تیری یاد میں جلنے کے لئےا
یہ دل ہی کافی ہے تیری یاد میں جلنے کے لئےا
(14) محمد شہباز تنولی
سو بار کہا میں نے، انکار ہے اُلفت سے
ہر بار صدا آئی، تُو دل سے نہیں کہتا
ہر بار صدا آئی، تُو دل سے نہیں کہتا
(15) محمد شہباز تنولی
سارا ہی شہر اس کے جنازے میں تھا شریک
تنہائیوں کے خوف سے جو شخص مر گیا
تنہائیوں کے خوف سے جو شخص مر گیا
(16) محمد شہباز تنولی
سزا بن جاتی ہیں گزرے وقت کی یادیں
نا جانے کیوں اتنے مہرباں ہوتے ہیں لوگ
نا جانے کیوں اتنے مہرباں ہوتے ہیں لوگ
(17) محمد شہباز تنولی
سبب ہر اِک پوچھتا ہے مجھ سے رونے کا
اِلہٰی ساری دنیا، میں کیسے راز داں کر لوں
اِلہٰی ساری دنیا، میں کیسے راز داں کر لوں
(18) محمد شہباز تنولی
سرد فضا، سرد لہجے اور یادوں کی یہ ہلکی بوندیں
بے چینیوں کو بڑھا دیاہے دسمبر کی ہواؤں نے
بے چینیوں کو بڑھا دیاہے دسمبر کی ہواؤں نے
(19) محمد شہباز تنولی
بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے ہجر کا پیاسا دسمبر
تمھارے ہجر کا پیاسا دسمبر
(20) محمد شہباز تنولی
پھر سے ماضی کی یادوں میں کھو گیا ہوں میں
پوچھا جو کسی نے محبت کا سفر کیسا تھا
پوچھا جو کسی نے محبت کا سفر کیسا تھا
(21) محمد شہباز تنولی
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جُفا سے توبہ
ہائے اُس ذودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
ہائے اُس ذودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
(22) محمد شہباز تنولی
پھر سے ماضی کی یادوں میں کھو گیا ہوں میں
پوچھا جو کسی نے محبت کا سفر کیسا تھا
پوچھا جو کسی نے محبت کا سفر کیسا تھا
(23) محمد شہباز تنولی
وہ ہم سے کہتے ہیں بدل گئے ہو تم
رنگ ٹوٹے پتوں کا اکثر بدل ہی جاتا ہے
رنگ ٹوٹے پتوں کا اکثر بدل ہی جاتا ہے
(24) محمد شہباز تنولی
نہ کر اے طبیب !! ناکام کوششیں میرے درد کو سمجھنے کی
تُو پہلے عشق کر، پھر چوٹ کھا، پھر لکھ میرے درد کی دوا
تُو پہلے عشق کر، پھر چوٹ کھا، پھر لکھ میرے درد کی دوا
(25) محمد شہباز تنولی
نیا نیا تھا ہمیں بھی جنوں پرستش کا
بنا ہوا تھا سرِ انجمن خدا وہ بھی
بنا ہوا تھا سرِ انجمن خدا وہ بھی
(26) محمد شہباز تنولی
ذرا سا جھوٹ ہی کہہ دو، ہمارے بِن ادھورے ہو
ذرا سی بات کہنے میں تمہارا کیا بگڑتا ہے
ذرا سی بات کہنے میں تمہارا کیا بگڑتا ہے
(27) محمد شہباز تنولی
ذرا سی بات سہی تیرا یاد آ جانا
ذرا سی بات بُہت دیر تک رُلاتی ہے
ذرا سی بات بُہت دیر تک رُلاتی ہے
(28) محمد شہباز تنولی
ذرا سی بات پہ دامن چھڑا لیا ہم سے
تما م عمر کی وابستگی کو بھول گئے
تما م عمر کی وابستگی کو بھول گئے
(29) محمد شہباز تنولی
پھر سے ماضی کی یادوں میں کھو گیا ہوں میں
پوچھا جو کسی نے محبت کا سفر کیسا تھا
پوچھا جو کسی نے محبت کا سفر کیسا تھا
(30) محمد شہباز تنولی
نفرتیں لاکھ سہی اُس کو میری ذات سے مگر
میرے ذکر پر اُس کا دل دھڑکتا تو ہو گا
میرے ذکر پر اُس کا دل دھڑکتا تو ہو گا
(31) محمد شہباز تنولی
(32) محمد شہباز تنولی
(33) محمد شہباز تنولی
(34) محمد شہباز تنولی
(35) محمد شہباز تنولی
بس یونہی چپ ہیں، سبب کچھ بھی نہیں
پہلے کچھ تھا بھی تو اب کچھ بھی نہیں
پہلے کچھ تھا بھی تو اب کچھ بھی نہیں
(32) محمد شہباز تنولی
روتے ہیں دل کے زخم تو ہنستا نہیں کوئی
اتنا تو فائدہ مجھے تنہائیوں سے ہے
اتنا تو فائدہ مجھے تنہائیوں سے ہے
(33) محمد شہباز تنولی
رفتہ رفتہ تیرا ہجر ہم پہ برس رہا ہے
کل ٹوٹ چُکے تھے آج بکھر گئے ہیں
کل ٹوٹ چُکے تھے آج بکھر گئے ہیں
(34) محمد شہباز تنولی
رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ بھی نہیں
اشک پینے کے لیے ہیں یا بہانے کے لیے
اشک پینے کے لیے ہیں یا بہانے کے لیے
(35) محمد شہباز تنولی
روز کہتا ہوں بھول جاؤں تُجھے
اور روز یہ بات بھول جاتا ہوں
اور روز یہ بات بھول جاتا ہوں
0 comments:
Post a Comment